تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
جمال احسانی
اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی
جمال احسانی
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو
جاذب قریشی
در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی
پھر یہ بارش مری تنہائی چرانے آئی
کیف بھوپالی
کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا
کیف بھوپالی
وہ اب کیا خاک آئے ہائے قسمت میں ترسنا تھا
تجھے اے ابر رحمت آج ہی اتنا برسنا تھا
کیفی حیدرآبادی
عجب پر لطف منظر دیکھتا رہتا ہوں بارش میں
بدن جلتا ہے اور میں بھیگتا رہتا ہوں بارش میں
خالد معین