در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی
پھر یہ بارش میری تنہائی چرانے آئی
زندگی باپ کی مانند سزا دیتی ہے
رحم دل ماں کی طرح موت بچانے آئی
آج کل پھر دل برباد کی باتیں ہیں وہی
ہم تو سمجھے تھے کہ کچھ عقل ٹھکانے آئی
دل میں آہٹ سی ہوئی روح میں دستک گونجی
کس کی خوش بو یہ مجھے میرے سرہانے آئی
میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا
دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی
تیری مانند تری یاد بھی ظالم نکلی
جب بھی آئی ہے مرا دل ہی دکھانے آئی
غزل
در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی
کیف بھوپالی