صحرا میں کوئی سایۂ دیوار تو دیکھو
اے ہم سفرو دھوپ کے اس پار تو دیکھو
جلتا ہوں اندھیروں میں کہ چمکے کوئی چہرہ
موسم ہیں عداوت کے مگر پیار تو دیکھو
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو
اس شخص کے تازہ لب و رخسار تو دیکھو
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو
کل شام وہ تنہا تھا سمندر کے کنارے
کیا سوچ رہے ہو کوئی اخبار تو دیکھو
آنکھیں ہیں کہ زخمی ہیں بدن ہیں کہ شکستہ
آشوب سفر ہوں مری رفتار تو دیکھو
غزل
صحرا میں کوئی سایۂ دیوار تو دیکھو
جاذب قریشی