EN हिंदी
بدان شیاری | شیح شیری

بدان

31 شیر

یہ بے کنار بدن کون پار کر پایا
بہے چلے گئے سب لوگ اس روانی میں

فرحت احساس




کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو
سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں

حمیدہ شاہین




بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے

حمایت علی شاعرؔ




بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں

عرفانؔ صدیقی




مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی

عرفانؔ صدیقی




میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں
مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

عرفانؔ صدیقی




روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن
خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

عرفانؔ صدیقی