اک جادوگر ہے آنکھوں کی بستی میں
تارے ٹانک رہا ہے میری چنری میں
میرے سخی نے خالی ہاتھ نہ لوٹایا
ڈھیروں دکھ باندھے ہیں میری گٹھڑی میں
کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو
سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں
جن کی خوشبو چھید رہی ہے آنچل کو
کیسے پھول وہ ڈال گیا ہے جھولی میں
جس نے مہر و ماہ کے کھاتے لکھنے ہوں
میں اک ذرہ کب تک اس کی گنتی میں
عشق حساب چکانا چاہا تھا ہم نے
ساری عمر سما گئی ایک کٹوتی میں
حرف زیست کو موت کی دیمک چاٹ بھی لے
کب سے ہوں محصور بدن کی گھاٹی میں
غزل
اک جادوگر ہے آنکھوں کی بستی میں
حمیدہ شاہین