EN हिंदी
ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی | شیح شیری
har dhaDkan haijaani thi har KHamoshi tufani thi

غزل

ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی

جون ایلیا

;

ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی
پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی

جس دن اس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
جس دن اس کا خط آیا ہے اس دن بھی ویرانی تھی

جب اس نے مجھ سے یہ کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی

جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی روداد یہ ہے
اس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی

الجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں
میرا مزاج عشق تھا شہری اس کی وفا دہقانی تھی

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا
اس کو دیکھ کے رک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی

مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی

عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا
لمحے لا فانی ٹھہرے تھے قطروں کی طغیانی تھی

جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفاں سمجھا تھا
وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی

تھا دربار کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا
تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی