EN हिंदी
احسان شیاری | شیح شیری

احسان

75 شیر

طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں

عباس رضوی




آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا

عباس تابش




اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
قافلے راہ بھول جاتے ہیں

عبد الحمید عدم




جب ترے نین مسکراتے ہیں
زیست کے رنج بھول جاتے ہیں

عبد الحمید عدم




بھر لائے ہیں ہم آنکھ میں رکھنے کو مقابل
اک خواب تمنا تری غفلت کے برابر

ابرار احمد




ہر ایک آنکھ میں ہوتی ہے منتظر کوئی آنکھ
ہر ایک دل میں کہیں کچھ جگہ نکلتی ہے

ابرار احمد




ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی

عادل منصوری