EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں

محمد رفیع سودا




سوداؔ کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے

محمد رفیع سودا




سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو تک تو کہیں مر بھی

محمد رفیع سودا




سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو تک تو کہیں مر بھی

محمد رفیع سودا




سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

محمد رفیع سودا




ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا

محمد رفیع سودا




ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا

محمد رفیع سودا