سمجھے تھے ہم جو دوست تجھے اے میاں غلط
تیرا نہیں ہے جرم ہمارا گماں غلط
محمد رفیع سودا
سوداؔ ہوئے جب عاشق کیا پاس آبرو کا
سنتا ہے اے دوانے جب دل دیا تو پھر کیا
محمد رفیع سودا
سوداؔ جہاں میں آ کے کوئی کچھ نہ لے گیا
جاتا ہوں ایک میں دل پر آرزو لیے
محمد رفیع سودا
سوداؔ جہاں میں آ کے کوئی کچھ نہ لے گیا
جاتا ہوں ایک میں دل پر آرزو لیے
محمد رفیع سودا
سوداؔ جو بے خبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش
مشکل بہت ہے ان کو جو رکھتے ہیں آگہی
محمد رفیع سودا
سوداؔ جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
محمد رفیع سودا
سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں
محمد رفیع سودا