EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی
زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی

ثمینہ راجہ




آنا یہ ہچکیوں کا مجھے بے سبب نہیں
بھولے سے اس نے یاد کیا ہو عجب نہیں

ثناء اللہ فراق




دل تھامتا کہ چشم پہ کرتا تری نگاہ
ساغر کو دیکھتا کہ میں شیشہ سنبھالتا

ثناء اللہ فراق




انگلیاں گھس گئیں یاں ہاتھوں کو ملتے ملتے
لیکن افسوس نوشتہ نہ مٹا قسمت کا

ثناء اللہ فراق




اپنی مستی کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

ثناء اللہ ظہیر




کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے

ثناء اللہ ظہیر




خلا میں تیرتے پھرتے ہیں ہاتھ پکڑے ہوئے
زمیں کی ایک صدی ایک سال سورج کا

ثناء اللہ ظہیر