شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی
زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی
ثمینہ راجہ
آنا یہ ہچکیوں کا مجھے بے سبب نہیں
بھولے سے اس نے یاد کیا ہو عجب نہیں
ثناء اللہ فراق
دل تھامتا کہ چشم پہ کرتا تری نگاہ
ساغر کو دیکھتا کہ میں شیشہ سنبھالتا
ثناء اللہ فراق
انگلیاں گھس گئیں یاں ہاتھوں کو ملتے ملتے
لیکن افسوس نوشتہ نہ مٹا قسمت کا
ثناء اللہ فراق
اپنی مستی کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں
ثناء اللہ ظہیر
کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے
ثناء اللہ ظہیر
خلا میں تیرتے پھرتے ہیں ہاتھ پکڑے ہوئے
زمیں کی ایک صدی ایک سال سورج کا
ثناء اللہ ظہیر