EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

رفتہ رفتہ گھل گئی میری سوچ کی برف
یعنی میں خود ہو گیا اپنے ہاتھوں صرف

سلیم انصاری




سورج ڈوبا اور پھر اترے کالے سائے
پیڑوں کی آواز پر پنچھی واپس آئے

سلیم انصاری




یادوں کے سرمائے پر خود سے مانگوں بیاج
یوں اپنی تنہائی کا جشن مناؤں آج

سلیم انصاری




یادوں کے سرمائے پر خود سے مانگوں بیاج
یوں اپنی تنہائی کا جشن مناؤں آج

سلیم انصاری




میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی

سلیم بیتاب




اس ملک میں بھی لوگ قیامت کے ہیں منکر
جس ملک کے ہر شہر میں اک حشر بپا ہے

سلیم بیتاب




اس ملک میں بھی لوگ قیامت کے ہیں منکر
جس ملک کے ہر شہر میں اک حشر بپا ہے

سلیم بیتاب