چہرے پہ اس کے اشک کی تحریر بن گئی
وہ آنکھ میرے درد کی تفسیر بن گئی
میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی
ہر سمت ہیں کٹی پڑی پھولوں کی گردنیں
اب کے صبا ہی باغ میں شمشیر بن گئی
اس کی نظر تو کہتی تھی پرواز کے لیے
میری ہی سوچ پاؤں کی زنجیر بن گئی
جس سمت وہ اٹھی ہے ادھر مڑ گئی حیات
اس کی نظر ہی گردش تقدیر بن گئی
غزل
چہرے پہ اس کے اشک کی تحریر بن گئی
سلیم بیتاب