کچھ بھی ہو ریاضؔ آنکھ میں آنسو نہیں آتے
مجھ کو تو کسی بات کا اب غم نہیں ہوتا
ریاضؔ خیرآبادی
کیا مزا دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ
مجھ سے لپٹے ہیں مرے نام سے ڈرنے والے
ریاضؔ خیرآبادی
کیا شراب ناب نے پستی سے پایا ہے عروج
سر چڑھی ہے حلق سے نیچے اتر جانے کے بعد
ریاضؔ خیرآبادی
لب میگوں کا تقاضا ہے کہ جینا ہوگا
آنکھ کہتی ہے تجھے زہر بھی پینا ہوگا
ریاضؔ خیرآبادی
لٹ گئی شب کو دو شے جس کو چھپاتے تھے بہت
ان حسینوں سے کوئی پوچھے کہ کیا جاتا رہا
ریاضؔ خیرآبادی
مے خانے میں کیوں یاد خدا ہوتی ہے اکثر
مسجد میں تو ذکر مے و مینا نہیں ہوتا
ریاضؔ خیرآبادی
مے خانے میں کیوں یاد خدا ہوتی ہے اکثر
مسجد میں تو ذکر مے و مینا نہیں ہوتا
ریاضؔ خیرآبادی