EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

صدمہ سے بال شیشۂ گردوں میں پڑ گیا
تم نے دکھائی کوٹھے پر اپنی کمر کسے

منیرؔ  شکوہ آبادی




سختیٔ دہر ہوئے بحر سخن میں آساں
قافیے آئے جو پتھر کے میں پانی سمجھا

منیرؔ  شکوہ آبادی




سرسوں جو پھولی دیدۂ جام شراب میں
بنت العنب سے کرنے لگا شوخیاں بسنت

منیرؔ  شکوہ آبادی




شبنم کی ہے انگیا تلے انگیا کی پسینہ
کیا لطف ہے شبنم تہ شبنم نظر آئی

منیرؔ  شکوہ آبادی




شرم کب تک اے پری لا ہاتھ کر اقرار وصل
اپنے دل کو سخت کر کے رشتۂ انکار توڑ

منیرؔ  شکوہ آبادی




شکر ہے جامہ سے باہر وہ ہوا غصہ میں
جو کہ پردے میں بھی عریاں نہ ہوا تھا سو ہوا

منیرؔ  شکوہ آبادی




سلسلہ گبرو مسلماں کی عداوت کا مٹا
اے پری بے پردہ ہو کر سبحۂ زنار توڑ

منیرؔ  شکوہ آبادی