EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پڑ گئی جان جو اس طفل نے پتھر مارے
آج جگنو کی طرح ہر شرر سنگ اڑا

منیرؔ  شکوہ آبادی




پایا طبیب نے جو تری زلف کا مریض
شامل دوا میں مشک شب تار کر دیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے
کس سے ملا ہے شیشۂ دل ہم سے پھوٹ کے

منیرؔ  شکوہ آبادی




رندوں کو پابندیٔ دنیا کہاں
کشتیٔ مے کو نہیں لنگر کی چاہ

منیرؔ  شکوہ آبادی




روز دل ہائے مے کشاں ٹوٹے
اے خدا جام آسماں ٹوٹے

منیرؔ  شکوہ آبادی




سب نے لوٹے ان کے جلوہ کے مزے
شربت دیدار جوٹھا ہو گیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




صبر کب تک راہ پیدا ہو کہ اے دل جان جائے
ایک ٹکر مار کر سر پھوڑ یا دیوار توڑ

منیرؔ  شکوہ آبادی