ملتے ہیں خوبرو ترے خیمہ سے چھاتیاں
انگیا کی ڈوریاں ہیں مقرر قنات میں
منیرؔ شکوہ آبادی
مستوں میں پھوٹ پڑ گئی آتے ہی یار کے
لڑتا ہے آج شیشہ سے شیشہ شراب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
مل مل گئے ہیں خاک میں لاکھوں دل روشن
ہر ذرہ مجھے عرش کا تارا نظر آیا
منیرؔ شکوہ آبادی
منڈیروں پر چھڑک دے اپنے کشتوں کا لہو اے گل
اگے گا سبزۂ شمسیر دیوار گلستاں پر
منیرؔ شکوہ آبادی
منہ تک بھی ضعف سے نہیں آ سکتی دل کی بات
دروازہ گھر سے سیکڑوں فرسنگ ہو گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
مجھ کو اپنے ساتھ ہی تیرے سلانے کی ہوس
اس طرح ہے بخت خفتہ کے جگانے کی ہوس
منیرؔ شکوہ آبادی
نماز شکر کی پڑھتا ہے جام توڑ کے شیخ
وضو کے واسطے لیتا ہے آبروئے شراب
منیرؔ شکوہ آبادی

