EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اس بت کے نہانے سے ہوا صاف یہ پانی
موتی بھی صدف میں تہہ دریا نظر آیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




اسی حور کی رنگت اڑی رونے سے ہمارے
رنگ گل فردوس بھی کچا نظر آیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات

منیرؔ  شکوہ آبادی




وہاں پہنچ نہیں سکتیں تمہاری زلفیں بھی
ہمارے دست طلب کی جہاں رسائی ہے

منیرؔ  شکوہ آبادی




وحشت میں بسر ہوتے ہیں ایام شباب آہ
یہ شام جوانی ہے کہ سایہ ہے ہرن کا

منیرؔ  شکوہ آبادی




ورد اسم ذات کھولا چاہتا ہے یہ گرہ
میرے دل پر دانت ہے اللہ کی تشدید کا

منیرؔ  شکوہ آبادی




یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو
تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا

منیرؔ  شکوہ آبادی