EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تیز رکھیو سر ہر خار کو اے دشت جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد

منور خان غافل




وصل میں بھی نہیں مجال‌ سخن
اس رسائی پہ نارسا ہیں ہم

منور خان غافل




وہ آئنہ تن آئینہ پھر کس لیے دیکھے
جو دیکھ لے منہ اپنا ہر اک عضو بدن میں

منور خان غافل




وہ ہوا خواہ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں آتا ہوں اور باد صبا میرے بعد

منور خان غافل




وہ صبح کو اس ڈر سے نہیں بام پر آتا
نامہ نہ کوئی باندھ دے سورج کی کرن میں

منور خان غافل




زلف پر پیچ کے سودے میں عجب کیا امکاں
گر الجھ جائے خریدار خریدار کے ساتھ

منور خان غافل




آتے ہیں جیسے جیسے بچھڑنے کے دن قریب
لگتا ہے جیسے ریل سے کٹنے لگا ہوں میں

منور رانا