توبہ کھڑی ہے در پہ جو فریاد کے لئے
یہ مے کدہ بھی کیا کسی قاضی کا گھر ہوا
احمد حسین مائل
تم گلے مل کر جو کہتے ہو کہ اب حد سے نہ بڑھ
ہاتھ تو گردن میں ہیں ہم پاؤں پھیلائیں گے کیا
احمد حسین مائل
تم کو معلوم جوانی کا مزا ہے کہ نہیں
خواب ہی میں کبھی کچھ کام ہوا ہے کہ نہیں
احمد حسین مائل
وعدہ کیا ہے غیر سے اور وہ بھی وصل کا
کلی کرو حضور ہوا ہے دہن خراب
احمد حسین مائل
واعظ کا اعتراض یہ بت ہیں خدا نہیں
میرا یہ اعتقاد کہ جلوے خدا کے ہیں
احمد حسین مائل
وہ بزم میں ہیں روتے ہیں عشاق چو طرف
پانی ہے گرد انجمن اور انجمن میں آگ
احمد حسین مائل
وہ رات آئے کہ سر تیرا لے کے بازو پر
تجھے سلاؤں بیاں کر کے میں فسانۂ عشق
احمد حسین مائل