ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے
شکیل جمالی
اگر ہمارے ہی دل میں ٹھکانا چاہئے تھا
تو پھر تجھے ذرا پہلے بتانا چاہئے تھا
شکیل جمالی
اپنے خون سے اتنی تو امیدیں ہیں
اپنے بچے بھیڑ سے آگے نکلیں گے
شکیل جمالی
غم کے پیچھے مارے مارے پھرنا کیا
یہ دولت تو گھر بیٹھے آ جاتی ہے
شکیل جمالی
ہر کونے سے تیری خوشبو آئے گی
ہر صندوق میں تیرے کپڑے نکلیں گے
شکیل جمالی
ہو گئی ہے مری اجڑی ہوئی دنیا آباد
میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں یہ بتانے کے لیے
شکیل جمالی
اک بیمار وصیت کرنے والا ہے
رشتے ناطے جیبھ نکالے بیٹھے ہیں
شکیل جمالی
اک بیمار وصیت کرنے والا ہے
رشتے ناطے جیبھ نکالے بیٹھے ہیں
شکیل جمالی
جھوٹ میں شک کی کم گنجائش ہو سکتی ہے
سچ کو جب چاہو جھٹلایا جا سکتا ہے
شکیل جمالی