EN हिंदी
سارے بھولے بسروں کی یاد آتی ہے | شیح شیری
sare bhule bisron ki yaad aati hai

غزل

سارے بھولے بسروں کی یاد آتی ہے

شکیل جمالی

;

سارے بھولے بسروں کی یاد آتی ہے
ایک غزل سب زخم ہرے کر جاتی ہے

پا لینے کی خواہش سے محتاط رہو
محرومی کی بیماری لگ جاتی ہے

غم کے پیچھے مارے مارے پھرنا کیا
یہ دولت تو گھر بیٹھے آ جاتی ہے

دن کے سب ہنگامے رکھنا ذہنوں میں
رات بہت سناٹے لے کر آتی ہے

دامن تو بھر جاتے ہیں عیاری سے
دسترخوانوں سے برکت اٹھ جاتی ہے

رات گئے تک چلتی ہے ٹی وی پر فلم
روز نماز فجر قضا ہو جاتی ہے