سارے بھولے بسروں کی یاد آتی ہے
ایک غزل سب زخم ہرے کر جاتی ہے
پا لینے کی خواہش سے محتاط رہو
محرومی کی بیماری لگ جاتی ہے
غم کے پیچھے مارے مارے پھرنا کیا
یہ دولت تو گھر بیٹھے آ جاتی ہے
دن کے سب ہنگامے رکھنا ذہنوں میں
رات بہت سناٹے لے کر آتی ہے
دامن تو بھر جاتے ہیں عیاری سے
دسترخوانوں سے برکت اٹھ جاتی ہے
رات گئے تک چلتی ہے ٹی وی پر فلم
روز نماز فجر قضا ہو جاتی ہے
غزل
سارے بھولے بسروں کی یاد آتی ہے
شکیل جمالی