الٹے سیدھے سپنے پالے بیٹھے ہیں
سب پانی میں کانٹا ڈالے بیٹھے ہیں
اک بیمار وصیت کرنے والا ہے
رشتے ناطے جیبھ نکالے بیٹھے ہیں
بستی کا معمول پہ آنا مشکل ہے
چوراہے پر وردی والے بیٹھے ہیں
دھاگے پر لٹکی ہے عزت لوگوں کی
سب اپنی دستار سنبھالے بیٹھے ہیں
صاحبزادہ پچھلی رات سے غائب ہے
گھر کے اندر رشتے والے بیٹھے ہیں
آج شکاری کی جھولی بھر جائے گی
آج پرندے گردن ڈالے بیٹھے ہیں
غزل
الٹے سیدھے سپنے پالے بیٹھے ہیں
شکیل جمالی