کھانے کو تو زہر بھی کھایا جا سکتا ہے
لیکن اس کو پھر سمجھایا جا سکتا ہے
اس دنیا میں ہم جیسے بھی رہ سکتے ہیں
اس دلدل پر پاؤں جمایا جا سکتا ہے
سب سے پہلے دل کے خالی پن کو بھرنا
پیسہ ساری عمر کمایا جا سکتا ہے
میں نے کیسے کیسے صدمے جھیل لیے ہیں
اس کا مطلب زہر پچایا جا سکتا ہے
اتنا اطمینان ہے اب بھی ان آنکھوں میں
ایک بہانہ اور بنایا جا سکتا ہے
جھوٹ میں شک کی کم گنجائش ہو سکتی ہے
سچ کو جب چاہو جھٹلایا جا سکتا ہے
غزل
کھانے کو تو زہر بھی کھایا جا سکتا ہے
شکیل جمالی