EN हिंदी
وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے | شیح شیری
wafadaron pe aafat aa rahi hai

غزل

وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے

شکیل جمالی

;

وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے
میاں لے لو جو قیمت آ رہی ہے

میں اس سے اتنے وعدے کر چکا ہوں
مجھے اس بار غیرت آ رہی ہے

نہ جانے مجھ میں کیا دیکھا ہے اس نے
مجھے اس پر محبت آ رہی ہے

بدلتا جا رہا ہے جھوٹ سچ میں
کہانی میں صداقت آ رہی ہے

مرا جھگڑا زمانے سے نہیں ہے
مرے آڑے محبت آ رہی ہے

ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے

مجھے اس کی اداسی نے بتایا
بچھڑ جانے کی ساعت آ رہی ہے

بڑوں کے درمیاں بیٹھا ہوا ہوں
نصیحت پر نصیحت آ رہی ہے