وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے
میاں لے لو جو قیمت آ رہی ہے
میں اس سے اتنے وعدے کر چکا ہوں
مجھے اس بار غیرت آ رہی ہے
نہ جانے مجھ میں کیا دیکھا ہے اس نے
مجھے اس پر محبت آ رہی ہے
بدلتا جا رہا ہے جھوٹ سچ میں
کہانی میں صداقت آ رہی ہے
مرا جھگڑا زمانے سے نہیں ہے
مرے آڑے محبت آ رہی ہے
ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے
مجھے اس کی اداسی نے بتایا
بچھڑ جانے کی ساعت آ رہی ہے
بڑوں کے درمیاں بیٹھا ہوا ہوں
نصیحت پر نصیحت آ رہی ہے
غزل
وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے
شکیل جمالی