EN हिंदी
شہریار شیاری | شیح شیری

شہریار شیر

102 شیر

آندھیاں آتی تھیں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا
خوف کے مارے جدا شاخ سے پتا نہ ہوا

شہریار




آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی
آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی

شہریار




آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دیے
ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات

شہریار




آنکھوں میں تیری دیکھ رہا ہوں میں اپنی شکل
یہ کوئی واہمہ یہ کوئی خواب تو نہیں

شہریار




آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے
میں نے سب تیاریاں کر لی ہیں مرنے کے لیے

شہریار




اب جدھر دیکھیے لگتا ہے کہ اس دنیا میں
کہیں کچھ چیز زیادہ ہے کہیں کچھ کم ہے

شہریار




اب جی کے بہلنے کی ہے ایک یہی صورت
بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھر سے

شہریار




اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا

شہریار




اب تو لے دے کے یہی کام ہے ان آنکھوں کا
جن کو دیکھا نہیں ان خوابوں کی تعبیر کریں

شہریار