کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
سیماب اکبرآبادی
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
سیماب اکبرآبادی
خدا اور ناخدا مل کر ڈبو دیں یہ تو ممکن ہے
میری وجہ تباہی صرف طوفاں ہو نہیں سکتا
سیماب اکبرآبادی
خلوص دل سے سجدہ ہو تو اس سجدے کا کیا کہنا
وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی
سیماب اکبرآبادی
کیا ڈھونڈھنے جاؤں میں کسی کو
اپنا مجھے خود پتا نہیں ہے
سیماب اکبرآبادی
کیوں جام شراب ناب مانگوں
ساقی کی نظر میں کیا نہیں ہے
سیماب اکبرآبادی
لہو سے میں نے لکھا تھا جو کچھ دیوار زنداں پر
وہ بجلی بن کے چمکا دامن صبح گلستاں پر
سیماب اکبرآبادی
ماضیٔ مرحوم کی ناکامیوں کا ذکر چھوڑ
زندگی کی فرصت باقی سے کوئی کام لے
سیماب اکبرآبادی