EN हिंदी
سیماب اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

سیماب اکبرآبادی شیر

44 شیر

وہ آئینہ ہو یا ہو پھول تارہ ہو کہ پیمانہ
کہیں جو کچھ بھی ٹوٹا میں یہی سمجھا مرا دل ہے

سیماب اکبرآبادی




وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری
یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری

سیماب اکبرآبادی




یہ میری تیرہ نصیبی یہ سادگی یہ فریب
گری جو برق میں سمجھا چراغ خانہ ملا

سیماب اکبرآبادی




یہ شراب عشق اے سیمابؔ ہے پینے کی چیز
تند بھی ہے بد مزہ بھی ہے مگر اکسیر ہے

سیماب اکبرآبادی




ہے حصول آرزو کا راز ترک آرزو
میں نے دنیا چھوڑ دی تو مل گئی دنیا مجھے

سیماب اکبرآبادی




برہمن کہتا تھا برہم شیخ بول اٹھا احد
حرف کے اک پھیر سے دونوں میں جھگڑا ہو گیا

سیماب اکبرآبادی




بت کریں آرزو خدائی کی
شان تیری ہے کبریائی کی

سیماب اکبرآبادی




چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے

the glow of fireflies appears as lightning heaven sent
the value of freedom is felt, during imprisonment

سیماب اکبرآبادی




دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے

سیماب اکبرآبادی