EN हिंदी
سیماب اکبرآبادی شیاری | شیح شیری

سیماب اکبرآبادی شیر

44 شیر

دیکھتے رہتے ہیں چھپ چھپ کے مرقع تیرا
کبھی آتی ہے ہوا بھی تو چھپا لیتے ہیں

سیماب اکبرآبادی




دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

سیماب اکبرآبادی




دل آفت زدہ کا مدعا کیا
شکستہ ساز کیا اس کی صدا کیا

سیماب اکبرآبادی




دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

سیماب اکبرآبادی




گناہوں پر وہی انسان کو مجبور کرتی ہے
جو اک بے نام سی فانی سی لذت ہے گناہوں میں

سیماب اکبرآبادی




ہائے سیمابؔ اس کی مجبوری
جس نے کی ہو شباب میں توبہ

سیماب اکبرآبادی




اب وہاں دامن کشی کی فکر دامن گیر ہے
یہ مرے خواب محبت کی نئی تعبیر ہے

سیماب اکبرآبادی




حسن میں جب ناز شامل ہو گیا
ایک پیدا اور قاتل ہو گیا

سیماب اکبرآبادی




جب دل پہ چھا رہی ہوں گھٹائیں ملال کی
اس وقت اپنے دل کی طرف مسکرا کے دیکھ

سیماب اکبرآبادی