چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
سحر تک سعیٔ نالہ رائیگاں معلوم ہوتی ہے
یہ دنیا تو بقدر یک فغاں معلوم ہوتی ہے
کسی کے دل میں گنجائش نہیں وہ بار ہستی ہوں
لحد کو بھی مری مٹی گراں معلوم ہوتی ہے
خزاں کے وقت بھی خاموش رہتی ہے فضا ساری
چمن کی پتی پتی راز داں معلوم ہوتی ہے
ہوائے شوق کی قوت وہاں لے آئی ہے مجھ کو
جہاں منزل بھی گرد کارواں معلوم ہوتی ہے
ترقی پر ہے روز افزوں خلش درد محبت کی
جہاں محسوس ہوتی تھی وہاں معلوم ہوتی ہے
قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریب آشیاں معلوم ہوتی ہے
نہ کیوں سیمابؔ مجھ کو قدر ہو ویرانئ دل کی
یہ بنیاد نشاط دو جہاں معلوم ہوتی ہے
غزل
چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
سیماب اکبرآبادی