ہائے سیمابؔ اس کی مجبوری
جس نے کی ہو شباب میں توبہ
سیماب اکبرآبادی
اب وہاں دامن کشی کی فکر دامن گیر ہے
یہ مرے خواب محبت کی نئی تعبیر ہے
سیماب اکبرآبادی
دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں
سیماب اکبرآبادی
دل آفت زدہ کا مدعا کیا
شکستہ ساز کیا اس کی صدا کیا
سیماب اکبرآبادی
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
سیماب اکبرآبادی
دیکھتے رہتے ہیں چھپ چھپ کے مرقع تیرا
کبھی آتی ہے ہوا بھی تو چھپا لیتے ہیں
سیماب اکبرآبادی
دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے
سیماب اکبرآبادی
چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے
the glow of fireflies appears as lightning heaven sent
the value of freedom is felt, during imprisonment
سیماب اکبرآبادی
بت کریں آرزو خدائی کی
شان تیری ہے کبریائی کی
سیماب اکبرآبادی