کمال علم و تحقیق مکمل کا یہ حاصل ہے
ترا ادراک مشکل تھا ترا ادراک مشکل ہے
یہ ویرانی تصور کی وہ رنگینی خیالوں کی
کبھی محفل میں خلوت ہے کبھی خلوت میں محفل ہے
وہ آئینہ ہو یا ہو پھول تارہ ہو کہ پیمانہ
کہیں جو کچھ بھی ٹوٹا میں یہی سمجھا مرا دل ہے
اجالا ہو تو ڈھونڈوں دل بھی پروانوں کی لاشوں میں
مری بربادیوں کو انتظار صبح محفل ہے
وہ دل لے کر ہمیں بے دل نہ سمجھیں ان سے کہہ دینا
جو ہیں مارے ہوئے نظروں کے ان کی ہر نظر دل ہے
وہ اے سیمابؔ کیوں سرگشتۂ تسنیم و جنت ہو
میسر جس کو سیر تاج ہے جمنا کا ساحل ہے
غزل
کمال علم و تحقیق مکمل کا یہ حاصل ہے
سیماب اکبرآبادی