آنکھ سے ٹپکا جو آنسو وہ ستارا ہو گیا
میرا دامن آج دامان ثریا ہو گیا
اس کے جی میں کیا یہ آئی یہ اسے کیا ہو گیا
خود چھپا عالم سے اور خود عالم آرا ہو گیا
بندۂ معنیٰ کہاں صورت کا بندا ہو گیا
سوچتا ہوں مجھ کو کیا ہونا تھا میں کیا ہو گیا
پھر تصور نے بڑھا دی نالۂ موزوں کی لے
پھر سواد فکر سے اک شعر پیدا ہو گیا
اب کہاں مایوسیوں میں جھلکیاں امید کی
وہ بھی کیا دن تھے کہ تیرا غم گوارا ہو گیا
جان دے دی میں نے تنگ آ کر وفور درد سے
آج منشائے جفائے دوست پورا ہو گیا
برہمن کہتا تھا برہم شیخ بول اٹھا احد
حرف کے اک پھیر سے دونوں میں جھگڑا ہو گیا
وحدت و کثرت کے جلوے خلقت انساں میں دیکھ
ایک ذرہ اس قدر پھیلا کہ دنیا ہو گیا
بربریت کی جہاں میں گرم بازاری ہوئی
آدمیت کی رگوں میں خون ٹھنڈا ہو گیا
آشیاں بننے نہ پایا تھا کہ بجلی گر پڑی
باغ ابھی بسنے نہ پایا تھا کہ صحرا ہو گیا
آ گیا سیلاب بالیں تک وفور گریہ سے
رحم کر یا رب کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا
اتفاق وقت تھا اپنا فروغ آشیاں
جب کوئی جگنو چمک اٹھا اجالا ہو گیا
دل کھنچا جتنا قفس میں آشیانے کی طرف
دور اتنا ہی قفس سے آشیانا ہو گیا
ہم مسافر تھے ہمارا مستقر کوئی نہ تھا
رات جب آئی جہاں آئی بسیرا ہو گیا
ہو گئے رخصت رئیسؔ و عالؔی و واصفؔ نثارؔ
رفتہ رفتہ آگرہ سیمابؔ سونا ہو گیا
غزل
آنکھ سے ٹپکا جو آنسو وہ ستارا ہو گیا
سیماب اکبرآبادی