EN हिंदी
اک آس کا دھندلا سایہ ہے اک پاس کا تپتا صحرا ہے | شیح شیری
ek aas ka dhundla saya hai ek pas ka tapta sahra hai

غزل

اک آس کا دھندلا سایہ ہے اک پاس کا تپتا صحرا ہے

سحر انصاری

;

اک آس کا دھندلا سایہ ہے اک پاس کا تپتا صحرا ہے
کیا دیکھ رہے ہو آنکھوں میں ان آنکھوں میں کیا رکھا ہے

جب کھونے کو کچھ پاس بھی تھا تب پانے کا کچھ دھیان نہ تھا
اب سوچتے ہو کیوں سوچتے ہو کیا کھویا ہے کیا پایا ہے

میں جھوٹ کو سچ سے کیوں بدلوں اور رات کو دن میں کیوں گھولوں
کیا سننے والا بہرا ہے کیا دیکھنے والا اندھا ہے

ہر خاک میں ہے گوہر غلطاں ہر گوہر میں مٹی رقصاں
جس روپ کے سب گن گاتے ہیں وہ روپ بھی کس نے دیکھا ہے

کس دل کی بات کہیں ہم تم کس دل کا درد سہیں ہم تم
دل پتھر ہے دل شیشہ ہے دل صحرا ہے دل دریا ہے

اب سارے تارے کنکر ہیں اب سارے ہیرے پتھر ہیں
اس بستی میں کیوں آئے ہو اس بستی میں کیا رکھا ہے

یہ مرنا جینا بھی شاید مجبوری کی دو لہریں ہیں
کچھ سوچ کے مرنا چاہا تھا کچھ سوچ کے جینا چاہا ہے