سچ یہی ہے کہ بہت آج گھن آتی ہے مجھے
ویسے وہ شے کبھی مطلوب رہی بھی ہے مجھے
اپنی تنہائی کو بازار گھما لایا ہوں
گھر کی چوکھٹ پہ پہنچتے ہی لپٹتی ہے مجھے
تجھ سے ملتا ہوں تو آ جاتی ہے آنکھوں میں نمی
تو سمجھتا ہے شکایت یہ پرانی ہے مجھے
اس کے شر سے میں سدا مانگتا رہتا ہوں پناہ
اسی دنیا سے محبت بھی بلا کی ہے مجھے
بس اسی وجہ سے ہے اس کی زباں میں لکنت
اس کو وہ بات سنانی ہے جو کہنی ہے مجھے

غزل
سچ یہی ہے کہ بہت آج گھن آتی ہے مجھے
صابر