مستقر کی خواہش میں منتشر سے رہتے ہیں
بے کنار دریا میں لفظ لفظ بہتے ہیں
سب الٹ پلٹ دی ہیں صرف و نحو دیرینہ
زخم زخم جیتے ہیں لمحہ لمحہ سہتے ہیں
یار لوگ کہتے ہیں خواب کا مزار اس کو
از رہ روایت ہم خواب گاہ کہتے ہیں
روشنی کی کرنیں ہیں یا لہو اندھیرے کا
سرخ رنگ قطرے جو روزنوں سے بہتے ہیں
یہ کیا بدمذاقی ہے گرد جھاڑتے کیوں ہو
اس مکان خستہ میں یار ہم بھی رہتے ہیں

غزل
مستقر کی خواہش میں منتشر سے رہتے ہیں
صابر