EN हिंदी
روش صدیقی شیاری | شیح شیری

روش صدیقی شیر

18 شیر

اب اس سے کیا غرض یہ حرم ہے کہ دیر ہے
بیٹھے ہیں ہم تو سایۂ دیوار دیکھ کر

روش صدیقی




بتان شہر کو یہ اعتراف ہو کہ نہ ہو
زبان عشق کی سب گفتگو سمجھتے ہیں

روش صدیقی




درد آلودۂ درماں تھا روشؔ
درد کو درد بنایا ہم نے

روش صدیقی




دل گوارا نہیں کرتا ہے شکست امید
ہر تغافل پہ نوازش کا گماں ہوتا ہے

روش صدیقی




ہزار حسن دل آرائے دو جہاں ہوتا
نصیب عشق نہ ہوتا تو رائیگاں ہوتا

روش صدیقی




ہزار رخ ترے ملنے کے ہیں نہ ملنے میں
کسے فراق کہوں اور کسے وصال کہوں

روش صدیقی




عشق خود اپنی جگہ مظہر انوار خدا
عقل اس سوچ میں گم کس کو خدا کہتے ہیں

روش صدیقی




جو راہ اہل خرد کے لیے ہے لا محدود
جنون عشق میں وہ چند گام ہوتی ہے

روش صدیقی




خون دل صرف کر رہا ہوں روشؔ
خوب سے نقش خوب تر کے لیے

روش صدیقی