بادۂ گل کو سب اندوہ ربا کہتے ہیں
اشک گل رنگ میں ڈھل جائے تو کیا کہتے ہیں
فرصت بزم بھی معلوم کہ ارباب نظر
شعلۂ شمع کو ہم دوش صبا کہتے ہیں
یہ مسلسل ترا پیماں تری پیماں شکنی
ہم اسے حاصل پیمان وفا کہتے ہیں
قصر آزادئ انساں ہی سہی مے خانہ
درمے خانہ کی زنجیر کو کیا کہتے ہیں
یہ رہ غم کے خم و پیچ عجب ہیں جن کو
خوش نظر سایۂ گیسوئے رسا کہتے ہیں
عشق خود اپنی جگہ مظہر انوار خدا
عقل اس سوچ میں گم کس کو خدا کہتے ہیں
کوئی کس دل سے بھلا ان کا برا چاہے گا
جو بھلے لوگ بروں کو بھی بھلا کہتے ہیں
دل نشیں تیرے سوا کوئی نہیں کوئی نہیں
کون ہیں وہ جو تجھے دل سے جدا کہتے ہیں
یہی دیوانہ جو پھولوں سے بھی کتراتا ہے
کیا اسی کو روشؔ آبلہ پا کہتے ہیں
غزل
بادۂ گل کو سب اندوہ ربا کہتے ہیں
روش صدیقی