شکست رنگ تمنا کو عرض حال کہوں
سکوت لب کو تقاضائے صد سوال کہوں
ہزار رخ ترے ملنے کے ہیں نہ ملنے میں
کسے فراق کہوں اور کسے وصال کہوں
مجھے یقیں ہے کہ کچھ بھی چھپا نہیں ان سے
انہیں یہ ضد کہ دل مبتلا کا حال کہوں
تو بے مثال سہی پھر بھی دل کو ہے اصرار
ادا ادا کو تری عالم مثال کہوں
مزاج محفل گیتی اگر نہ برہم ہو
تو رنگ عیش کو گرد رخ ملال کہوں
ہوا کے دوش پہ ہے ایک شعلۂ لرزاں
کہوں تو کیا تری تہذیب کا مآل کہوں
وہ ایک خواب جو تعمیر آپ ہے اپنی
میں کیا حقیقت رعنائی خیال کہوں
غزل کی بات رہے گی وہیں اگر سو بار
جواب شوخی و رعنائی غزال کہوں
روشؔ یہ سادگی عشق کا تقاضا ہے
کمال ہوش کو اخلاص کا زوال کہوں
غزل
شکست رنگ تمنا کو عرض حال کہوں
روش صدیقی