EN हिंदी
خرد کو گمشدۂ کو بہ کو سمجھتے ہیں | شیح شیری
KHirad ko gumshuda-e-ku-ba-ku samajhte hain

غزل

خرد کو گمشدۂ کو بہ کو سمجھتے ہیں

روش صدیقی

;

خرد کو گمشدۂ کو بہ کو سمجھتے ہیں
ہم اہل عشق تجھے روبرو سمجھتے ہیں

ترے خیال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ
ہر اک کو تکملۂ رنگ و بو سمجھتے ہیں

کوئی مقام کوئی مرحلہ نظر میں نہیں
کہاں ہے قافلۂ آرزو سمجھتے ہیں

بتان شہر کو یہ اعتراف ہو کہ نہ ہو
زبان عشق کی سب گفتگو سمجھتے ہیں

ہزار فتنہ در آغوش ہے سکوں تیرا
تجھے ہم اے دل آشفتہ خو سمجھتے ہیں

ہزار منزل نو یک فراغ گمشدگی
مآل حوصلۂ جستجو سمجھتے ہیں

فقیہ شہر سے کیا پوچھئے روشؔ کہ جناب
زبان شیشہ و جام و سبو سمجھتے ہیں