خرد کو گمشدۂ کو بہ کو سمجھتے ہیں
ہم اہل عشق تجھے روبرو سمجھتے ہیں
ترے خیال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ
ہر اک کو تکملۂ رنگ و بو سمجھتے ہیں
کوئی مقام کوئی مرحلہ نظر میں نہیں
کہاں ہے قافلۂ آرزو سمجھتے ہیں
بتان شہر کو یہ اعتراف ہو کہ نہ ہو
زبان عشق کی سب گفتگو سمجھتے ہیں
ہزار فتنہ در آغوش ہے سکوں تیرا
تجھے ہم اے دل آشفتہ خو سمجھتے ہیں
ہزار منزل نو یک فراغ گمشدگی
مآل حوصلۂ جستجو سمجھتے ہیں
فقیہ شہر سے کیا پوچھئے روشؔ کہ جناب
زبان شیشہ و جام و سبو سمجھتے ہیں
غزل
خرد کو گمشدۂ کو بہ کو سمجھتے ہیں
روش صدیقی