گر ایک رات گزر یاں وہ رشک ماہ کرے
عجب نہیں کہ گدا پر کرم جو شاہ کرے
دکھاوے آئنہ کس منہ سے اس کو منہ اپنا
کہ آفتاب کو جوں شمع صبح گاہ کرے
مقابل آتے ہی یوں کھینچ لے ہے دل وہ شوخ
کہ جیسے کاہ ربا جذب برگ کاہ کرے
حواس و ہوش کو چھوڑ آپ دل گیا اس پاس
جب اہل فوج ہی مل جائیں کیا سپاہ کرے
ستم شعار وفا دشمن آشنا بیزار
کہو تو ایسے سے کیونکر کوئی نباہ کرے
کئی تڑپتے ہیں عاشق کئی سسکتے ہیں
اس آرزو میں کہ وہ سنگ دل نگاہ کرے
محبت ایسے کی بیدارؔ سخت مشکل ہے
جو اپنی جان سے گزرے وہ اس کی چاہ کرے
غزل
گر ایک رات گزر یاں وہ رشک ماہ کرے
میر محمدی بیدار