تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے
ہم سری رکھتے ہیں ابرو بھی دم شمشیر سے
دیکھ یہ کرتا ہے غم کی لذتیں ہم پر حرام
ہو سمجھ کر آشنا اے نالہ ٹک تاثیر سے
ہوں میں وہ دیوانۂ نازک مزاج گل رخاں
کیجئے زنجیر جس کو سایۂ زنجیر سے
سوز دل کیونکر کروں اس شوخ کے آگے بیاں
شمع کی مانند جلتی ہے زباں تقریر سے
گرچہ ہوں بیدارؔ غرق معصیت سر تا بہ پا
پر امید مغفرت ہے شبر و شبیر سے
غزل
تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے
میر محمدی بیدار