ہاتھوں میں نازکی سے سنبھلتی نہیں جو تیغ
ہے اس میں کیا گناہ تیرے جاں نثارؔ کا
مردان علی خاں رانا
آخر ہوا ہے حشر بپا انتظار میں
صبح شب فراق ہوئی مارواڑ میں
مردان علی خاں رانا
ہر دم دم آخر ہے اجل سر پہ کھڑی ہے
دم بھر بھی ہم اس دم کا بھروسہ نہیں کرتے
مردان علی خاں رانا
ہر دم یہ دعا مانگتے رہتے ہیں خدا سے
اللہ بچائے شب فرقت کی بلا سے
مردان علی خاں رانا
ہرجائیوں کے عشق نے کیا کیا کیا ذلیل
رسوا رہے خراب رہے در بدر رہے
مردان علی خاں رانا
ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے
بس یہی موت کا بہانہ ہے
مردان علی خاں رانا
ہو غریبوں کا چاک خاک رفو
تار ہاتھ آئے جب نہ دامن سے
مردان علی خاں رانا
ہوا یقیں کہ زمیں پر ہے آج چاند گہن
وہ ماہ چہرے پہ جب ڈال کر نقاب آیا
مردان علی خاں رانا
جس کو دیکھو وو نور کا بقعہ
یہ پرستان ہے کہ لندن ہے
مردان علی خاں رانا