اشک حسرت دیدۂ دل سے ہیں جاری ان دنوں
کار طوفاں کر رہی ہے اشک باری ان دنوں
مردان علی خاں رانا
بدن میں زخم نہیں بدھیاں ہیں پھولوں کی
ہم اپنے دل میں اسی کو بہار جانتے ہیں
مردان علی خاں رانا
بدن پر بار ہے پھولوں کا سایہ
مرا محبوب ایسا نازنیں ہے
مردان علی خاں رانا
درد سر ہے تیری سب پند و نصیحت ناصح
چھوڑ دے مجھ کو خدا پر نہ کر اب سر خالی
مردان علی خاں رانا
دل کو لگاؤں اور سے میں تم کو چھوڑ دوں
فقرہ ہے یہ رقیب کا اور جھوٹھ بات ہے
مردان علی خاں رانا
دیا وہ جو نہ تھا وہم و گماں میں
بھلا میں اور کیا مانگوں خدا سے
مردان علی خاں رانا
دنیا میں کوئی عشق سے بد تر نہیں ہے چیز
دل اپنا مفت دیجیے پھر جی سے جائیے
مردان علی خاں رانا
فرقت کی رات وصل کی شب کا مزہ ملا
پہروں خیال یار سے باتیں کیا کیے
مردان علی خاں رانا
غم سوا عشق کا مآل نہیں
کون دل ہے جو پائمال نہیں
مردان علی خاں رانا