EN हिंदी
یوں تو آپس میں بگڑتے ہیں خفا ہوتے ہیں | شیح شیری
yun to aapas mein bigaDte hain KHafa hote hain

غزل

یوں تو آپس میں بگڑتے ہیں خفا ہوتے ہیں

مجروح سلطانپوری

;

یوں تو آپس میں بگڑتے ہیں خفا ہوتے ہیں
ملنے والے کہیں الفت میں جدا ہوتے ہیں

ہیں زمانے میں عجب چیز محبت والے
درد خود بنتے ہیں خود اپنی دوا ہوتے ہیں

حال دل مجھ سے نہ پوچھو مری نظریں دیکھو
راز دل کے تو نگاہوں سے ادا ہوتے ہیں

ملنے کو یوں تو ملا کرتی ہیں سب سے آنکھیں
دل کے آ جانے کے انداز جدا ہوتے ہیں

ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو سب کی جانب
لوگ ایسی ہی اداؤں پہ فدا ہوتے ہیں