EN हिंदी
خاطر غزنوی شیاری | شیح شیری

خاطر غزنوی شیر

16 شیر

لوگوں نے تو سورج کی چکا چوند کو پوجا
میں نے تو ترے سائے کو بھی سجدہ کیا ہے

خاطر غزنوی




میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

خاطر غزنوی




قطرے کی جرأتوں نے صدف سے لیا خراج
دریا سمندروں میں ملے اور مر گئے

خاطر غزنوی




سر رکھ کے سو گیا ہوں غموں کی صلیب پر
شاید کہ خواب لے اڑیں ہنستی فضاؤں میں

خاطر غزنوی




تو نہیں پاس تری یاد تو ہے
تو ہی تو سوجھے جہاں تک سوچوں

خاطر غزنوی




وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر بن گئیں
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے

خاطر غزنوی




یہ کون چپکے چپکے اٹھا اور چل دیا
خاطرؔ یہ کس نے لوٹ لیں محفل کی دھڑکنیں

خاطر غزنوی