EN हिंदी
پہلی محبتوں کے زمانے گزر گئے | شیح شیری
pahli mohabbaton ke zamane guzar gae

غزل

پہلی محبتوں کے زمانے گزر گئے

خاطر غزنوی

;

پہلی محبتوں کے زمانے گزر گئے
ساحل پہ ریت چھوڑ کے دریا اتر گئے

تیری انا نیاز کی کرنیں بجھا گئی
جذبے جو دل میں ابھرے تھے شرمندہ کر گئے

دل کی فضائیں آ کے کبھی خود بھی دیکھ لو
تم نے جو داغ بخشے تھے کیا کیا نکھر گئے

تیرے بدن کی لو میں کرشمہ نمو کا تھا
غنچے جو تیری سیج پہ جاگے سنور گئے

صدیوں میں چند پھول کھلے اور ثمر بنے
لمحوں میں آندھیوں کے تھپیڑوں سے مر گئے

شب بھر بدن مناتے رہے جشن ماہتاب
آئی سحر تو جیسے اندھیروں سے بھر گئے

محفل میں تیری آئے تھے لیکر نظر کی پیاس
محفل سے تیری لے کے مگر چشم تر گئے

قطرے کی جرأتوں نے صدف سے لیا خراج
دریا سمندروں میں ملے اور مر گئے