ہر حقیقت کو گماں تک سوچوں
میں بہاروں کو خزاں تک سوچوں
گفتگو تلخ حقائق سے بھی ہو
خواب ہی خواب کہاں تک سوچوں
ہر قدم ایک معمہ بن جائے
زندگی تجھ کو جہاں تک سوچوں
سوچ بن جاتی ہے گرداب بلا
ایک ہی بات کہاں تک سوچوں
حد پرواز مری اتنی ہے
لا مکاں کو بھی مکاں تک سوچوں
دسترس کس کی مداوا کیسا
درد کو صرف فغاں تک سوچوں
ناپوں جذبوں کو بھی پیمانوں سے
اشک کو آب رواں تک سوچوں
تو نہیں پاس تری یاد تو ہے
تو ہی تو سوجھے جہاں تک سوچوں
غزل
ہر حقیقت کو گماں تک سوچوں
خاطر غزنوی