دل کی رہ جائے نہ دل میں یہ کہانی کہہ لو
چاہے دو حرف لکھو چاہے زبانی کہہ لو
میں نے مرنے کی دعا مانگی وہ پوری نہ ہوئی
بس اسی کو مرے جینے کی نشانی کہہ لو
صرصر وقت اڑا لے گئی روداد حیات
وہی اوراق جنہیں عہد جوانی کہہ لو
جب نہیں شاخ چمن پر تو مرا نام ہی کیا
برگ آوارہ کہو برگ خزانی کہہ لو
تم سے کہنے کی نہ تھی بات مگر کہہ بیٹھا
اب اسے میری طبیعت کی روانی کہہ لو
وہی اک قصہ زمانے کو مرا یاد رہا
وہی اک بات جسے آج پرانی کہہ لو
ہم پہ جو گزری ہے بس اس کو رقم کرتے ہیں
آپ بیتی کہو یا مرثیہ خوانی کہہ لو
غزل
دل کی رہ جائے نہ دل میں یہ کہانی کہہ لو
خلیلؔ الرحمن اعظمی