EN हिंदी
کوثر نیازی شیاری | شیح شیری

کوثر نیازی شیر

17 شیر

اے مسیحا کبھی تو بھی تو اسے دیکھنے آ
تیرے بیمار کو سنتے ہیں کہ آرام نہیں

کوثر نیازی




اپنے وحشت زدہ کمرے کی اک الماری میں
تیری تصویر عقیدت سے سجا رکھی ہے

کوثر نیازی




بر سر عام اقرار اگر نا ممکن ہے تو یوں ہی سہی
کم از کم ادراک تو کر لے گن بے شک مت مان مرے

کوثر نیازی




بے سبب آج آنکھ پر نم ہے
جانے کس بات کا مجھے غم ہے

کوثر نیازی




چند لمحوں کے لیے ایک ملاقات رہی
پھر نہ وہ تو نہ وہ میں اور نہ وہ رات رہی

کوثر نیازی




حال دل اس کو سنا کر ہے بہت خوش کوثرؔ
لیکن اب سوچ ذرا کیا تری اوقات رہی

کوثر نیازی




ہر مرحلۂ غم میں ملی اس سے تسلی
ہر موڑ پہ گھبرا کے ترا نام لیا ہے

کوثر نیازی




جذبات میں آ کر مرنا تو مشکل سی کوئی مشکل ہی نہیں
اے جان جہاں ہم تیرے لیے جینا بھی گوارا کرتے ہیں

کوثر نیازی




منجدھار میں ناؤ ڈوب گئی تو موجوں سے آواز آئی
دریائے محبت سے کوثرؔ یوں پار اتارا کرتے ہیں

کوثر نیازی