مکڑی کے جالوں میں کب سے قید ہیں روشندان مرے
ہائے کیا سوچیں گے گھر کو دیکھ کے کل مہمان مرے
اب کے برس تو دل کی زمیں پر آگ فلک سے برسی ہے
فکر کی گندم کے دانوں سے خالی ہیں کھلیان مرے
میری زباں پر مصلحتوں کے پہرے ہیں تو پھر کیا ہے
حق کے علمبردار ہیں اب بھی مزدور و دہقان مرے
آج حصار دار و رسن میں ہوں پر آنے والا دن
شہر کی دیواروں پر چسپاں دیکھے گا فرمان مرے
شکل و شباہت میں بے شک کچھ فرق ذرا سا تھا ورنہ
تھے تو مسیحا بھی انسان اور قاتل بھی انسان مرے
بر سر عام اقرار اگر نا ممکن ہے تو یوں ہی سہی
کم از کم ادراک تو کر لے گن بے شک مت مان مرے
کل کوثرؔ میرے آنگن میں رقص بہاراں تھا لیکن
آج ترستے ہیں کاغذ کے پھولوں کو گلدان مرے
غزل
مکڑی کے جالوں میں کب سے قید ہیں روشندان مرے
کوثر نیازی